ہندوستان سے تعلق رکھنے والے 101 سالہ تن ساز(باڈی بلڈر)،منوہر ایچ(Manohar Aich) کی داستان ِحیات خاصی ڈرامائی ہے۔وہ مارچ 1913 ء میں بنگال کے ایک غریب کسان کے ہاں پیداہوا۔بچپن میں پہلوانوں کو کسرت کرتے اور کشتیاں لڑتے دیکھا ،تو خود بھی پہلوان بننے کی خاطر تن سازی کرنے لگا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1942ء میں وہ ہندوستانی شاہی فضائیہ سے منسلک ہوگیا۔منوہر کی خوش قسمتی کہ اس کا انگریز افسر،روب مارٹن بھی تن ساز تھا۔اسی نے اسے تن سازی کے جدید آلات اور تکنیکوں سے روشناس کرایا۔یوں منوہر فارغ وقت میں باڈی بلڈنگ کرنے لگا۔
ایک دن کسی متکبر برطانوی افسر نے اس کی بے عزتی کر ڈالی۔چراغ پا ہو کے منوہر نے اسے تھپڑ جڑ دیا…اس حرکت نے اسے جیل پہنچا ڈالا۔وہاں وہ آلات کے بغیر روزانہ دس بارہ گھنٹے کسرت کرتا۔چناں چہ محض 4 فٹ11 انچ قد رکھنے کے باوجود اس کا جسم بڑا کسرتی ہو گیا۔ منوہر 15 اگست 1947ء کو رہا ہوا۔بعد ا زاں روب مارٹن کی مالی مدد سے وہ وقتا فوقتاً لندن جاتا رہا۔ ۔وہاں
اس نے تن سازی کے مختلف عالمی مقابلوں میں حصہ لیا۔آخر اس کی محنت رنگ لائی اور وہ 1952ء میں ’’مسٹر یونیورس‘‘بن گیا۔نیز اسے باڈی بلڈنگ کے بین الاقوامی حلقوں کی جانب سے ’’جیبی ہرکولیس‘‘(Pocket Hercules)کا لقب ملا۔ یہ پست قامت تن ساز چاہتا ،تو اپنی شہرت سے فائدہ اٹھا کے برطانیہ میں بس سکتا تھا۔مگر اس نے بھارت چھوڑنے سے انکار کر دیا…وہ اپنے وطن ہی میںرہنا چاہتا تھا۔مگر منوہر کی اولاد بھارتی حکومت سے شاکی ہے،کہتی ہے کہ اس نے ان کے والد کو کسی ایوارڈ سے نہیں نوازا۔ تاہم منوہر کو کسی سے شکایت نہیں،وہ ہر حال میں راضی برضا رہتا ہے…اور یہی رویّہ اس کی بہترین صحت کا راز بھی ہے۔وہ کہتا ہے’’میں نے کبھی ذہنی یا جسمانی دبائو کو اپنے اوپر سوار نہیں ہونے دیا۔اور زندگی جیسی بھی تھی،اسے قبول کر لیا۔‘‘اس کا تکیہ کلام ہے:’’جو ہوا،سو ہوا۔‘‘ وہ آج کلکتہ میں مقیم ہے۔وہاں ایک باڈی بلڈنگ کلب چلاتا اور پیرانہ سالی کے باوصف اس کے معاملات چلانے میں بیٹوں کے ساتھ بھرپور حصہ لیتا ہے۔